سازِ خوابیدہ کو بیدار نہ کر دینا تھا
اپنے معصوم تبسم کی فروانی کو
وسعتِ دید پہ گلبار نہ کر دینا تھا
شوقِ مجبور کو بس ایک جھلک دکھلا کر
واقفِ لذتِ تکرار نہ کر دینا تھا
چشمِ مشتاق کی خاموش تمناوں کو
یک بیک مائلِ گفتار نہ کر دینا تھا
جلوہ حسن کو مستور ہی رہنے دیتے
حسرتِ دل کو گنہگار نہ کر دینا تھا
No comments:
Post a Comment
Please don't enter any Spam link in the comment box.