مرثیہ
(3)
کب تک دل کی خیر منائیں، کب تک رہ دکھلاؤ گے
کب تک چین کی مہلت دو گے، کب تک یاد نہ آؤ گے
بیتا دید اُمید کا موسم، خاک اُڑتی ہے آنکھوں میں
کب بھیجو گے درد کا بادل، کب برکھا برساؤ گے
عہدِ وفا یا ترکِ محبت، جو چاہو سو آپ کرو
اپنے بس کی بات ہی کیا ہے، ہم سے کیا منواؤ گے
کس نے وصل کا سورج دیکھا، کس پر ہجر کی رات ڈھلی
گیسوؤں والے کون تھے کیا تھے، ان کو کیا جتلاؤ گے
فیض دلوں کے بھاگ میں ہے گھر بھرنا بھی، لُٹ جانا بھی
تم اس حسن کے لطف و کرم پہ کتنے دن اتراؤ گے
اکتوبر 1968ء
No comments:
Post a Comment
Please don't enter any Spam link in the comment box.