’’اے روشنیوں کے شہر‘‘
سبزہ سبزہ سوکھ رہی ہے پھیکی زرد دوپہر
دیواروں کو چاٹ رہا ہے تنہائی کا زہر
دور افق تک گھٹتی،بڑھتی ،اٹھتی،گرتی رہتی ہے
کہر کی صورت بے رونق دردوں کی گدلی لہر
بستا ہے اِس کُہر کے پیچھے روشنیوں کا شہر
اے روشنیوں کے شہر
اے روشنیوں کے شہر
کون کہے کس سمت ہے تیری روشنیوں کی راہ
ہر جانب بے نورکھڑی ہے ہجر کی شہر پناہ
تھک کر ہر سُو بیٹھ رہی ہے شوق کی ماند سپاہ
آج مرا دل فکر میں ہے
اے روشنیوں کے شہر
شبخوں سے منہ پھیر نہ جائے ارمانوں کی رو
خیر ہو تیری لیلاؤں کی ،ان سب سے کہہ دو
آج کی شب جب دیئے جلائیں اونچی رکھیں لو
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment
Please don't enter any Spam link in the comment box.