غزل
وفائے وعدہ نہیں وعدہء دگر بھی نہیں
وہ مجھ سے روٹھے تو تھے، لیکن اس قدر بھی نہیں
برس رہی ہے حریمِ ہوس میں دولتِ حسن
گدائے عشق کے کاسے میں اک نظر بھی نہیں
نہ جانے کس لیے امید وار بیٹھا ہوں
اک ایسی راہ پہ جو تیری رہگزر بھی نہیں
نگاہِ شوق سرِ بزم بے حجاب نہ ہو
وہ بے خبر ہی سہی اتنے بے خبر بھی نہیں
یہ عہد ترکِ محبت ہے کس لیے آخر
سکونِ قلب ادھر بھی نہیں ادھر بھی نہیں
No comments:
Post a Comment
Please don't enter any Spam link in the comment box.