غزل
تیری صورت جو دلنشیں کی ہے
آشنا شکل ہر حسیں کی ہے
حسن سے دل لگا کے ہستی کی
ہرگھڑی ہم نے آتشیں کی ہے
صبحِ گل ہو کہ شامِ مے خانہ
مدح اس روئے نازنیں کی ہے
شیخ سے بے ہراس ملتے ہیں
ہم نے توبہ ابھی نہیں کی ہے
ذکر دوزخ، بیانِ حور و قصور
بات گویا یہیں کہیں کی ہے
اشک تو کچھ بھی رنگ لا نہ سکے
خوں سے تر آج آستیں کی ہے
کیسے مانیں حرم کے سہل پسند
رسم جو عاشقوں کے دیں کی ہے
فیض اوجِ خیال سے ہم نے
آسماں سندھ کی زمیں کی ہے
No comments:
Post a Comment
Please don't enter any Spam link in the comment box.