Tuesday, December 31, 2019

کہیں بھی شبنم کہیں نہیں ہے

صحرا کی رات

کہیں بھی شبنم کہیں نہیں ہے
عجب، کہ شبنم کہیں نہیں ہے
نہ سرد خورشید کی جبیں پر
کسی کے رخ پر، نہ آستیں پر
ذرا سی شبنم کہیں نہیں ہے
پسے ہوئے پتھروں کی موجیں
خموش و ساکن
حرارتِ ماہِ نیم شب میں سلگ رہی ہیں
اور شبنم کہیں نہیں ہے
برہنہ پا غول گیدڑوں کے
لگا رہے ہیں بنوں میں ٹھٹھے
کہ آج شبنم کہیں نہیں ہے
ببول کے استخواں کے ڈھانچے
پکارتے ہیں
نہیں ہے شبنم، کہیں نہیں ہے
سفید، دھندلائی روشنی میں
ہیں دشت کی چھاتیاں برہنہ
ترس رہی ہیں جو حسنِ انساں لیے کہ شبنم کا ایک قطرہ
کہیں پہ برسے
یہ چاند بھی سرد ہو رہے گا
افق پہ جب صبح کا کنارا
کسی کرن سے دہک اٹھے گا
کہ ایک درماندہ راہرو کی
جبیں پہ شبنم کا ہاتھ چمکے

 (قازقستان کا ممتاز نوجوان شاعر)
By Urdu Mehfil

No comments:

Post a Comment

Please don't enter any Spam link in the comment box.