غزل
پھر لوٹا ہے خورشیدِ جہانتاب سفر سے
پھر نورِ سحر دست و گریباں ہے سحر سے
پھر آگ بھڑکنے لگی ہر سازِ طرب میں
پھر شعلے لپکنے لگے ہر دیدہء تر سے
پھر نکلا ہے دیوانہ کوئی پھونک کے گھر کو
کچھ کہتی ہے ہر راہ ہر اک راہگزر سے
وہ رنگ ہے امسال گلستاں کی فضا کا
اوجھل ہوئی دیوارِ قفس حدِ نظر سے
ساغر تو کھنکتے ہیں شراب آئے نہ آئے
بادل تو گرجتے ہیں گھٹا برسے نہ برسے
پا پوش کی کیا فکر ہے، دستار سنبھالو
پایاب ہے جو موج گزر جائے گی سر سے
No comments:
Post a Comment
Please don't enter any Spam link in the comment box.