ہر سَمت پریشاں تری آمد کے قرینے
دھوکے دئیے کیا کیا ہمیں بادِ سحری نے
ہر منزلِ غربت پہ گماں ہوتا ہے گھر کا
بہلایا ہے ہر گام بہت در بدری نے
تھے بزم میں سب دودِ سرِ بزم سے شاداں
بیکار جلایا ہمیں روشن نظری نے
مَے خانے میں عاجز ہُوئے آزُردہ دِلی سے
مسجد کا نہ رکھا ہمیں آشفتہ سری نے
یہ جامۂ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا
مہلت ہی نہ دی فیض، کبھی بخیہ گری نے
لندن 1962
No comments:
Post a Comment
Please don't enter any Spam link in the comment box.