ملاقات مری
ساری دیوار سیہ ہوگئی تا حلقۂ دام
راستے بجھ گئے رُخصت ہُوئے رہ گیر تمام
اپنی تنہائی سے گویا ہوئی پھر رات مری
ہو نہ ہو آج پھر آئی ہے ملاقات مری
اک ہتھیلی پہ حِنا ، ایک ہتھیلی پہ لُہو
اک نظر زہر لئے ایک نظر میں دارو
دیر سے منزلِ دل میں کوئی آیا نہ گیا
فرقتِ درد میں بے آب ہُوا تختۂ داغ
کس سے کہیے کہ بھرے رنگ سے زخموں کے ایاغ
اور پھر خود ہی چلی آئی ملاقات مری
آشنا موت جو دشمن بھی ہے غم خوار بھی ہے
وہ جو ہم لوگوں کی قاتل بھی ہے دلدار بھی ہے
No comments:
Post a Comment
Please don't enter any Spam link in the comment box.