Tuesday, December 17, 2019

​اے دلِ بیتاب ٹھہر!

تیرگی ہے کہ امنڈتی ہی چلی آتی ہے
شب کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہو جیسے
چل رہی ہے کچھ اس انداز سے نبضِ ہستی
دونوں عالم کا نشہ ٹوٹ رہا ہو جیسے
رات کا گرم لہو اور بھی بہ جانے دو
یہی تاریکی تو ہے غازہء رخسارِ سحر
صبح ہونے ہی کو ہے اے دلِ بیتاب ٹھہر
ابھی زنجیر چھنکتی ہے پسِ پردہء ساز
مطلق الحکم ہے شیرازہء اسباب ابھی
ساغرِ ناب میں آنسو بھی ڈھلک جاتے ہیں
لغزشِ پا میں ہے پابندئ آداب ابھی
اپنے دیوانوں کو دیوانہ تو بن لینے دو
اپنے میخانوں کو میخانہ تو بن لینے دو
جلد یہ سطوتِ اسباب بھی اُٹھ جائے گی
یہ گرانبارئ آداب بھی اُٹھ جائے گی
خواہ زنجیر چھنکتی ہی، چھنکتی ہی رہے

By Urdu Mehfil

No comments:

Post a Comment

Please don't enter any Spam link in the comment box.