آج اِک حرف کو پھر ڈھونڈتا پھرتا ہے خیال
مدھ بھرا حرف کوئی، زہر بھرا حرف کوئی
دل نشیں حرف کوئی، قہر بھرا حرف کوئی
حرفِ اُلفت کوئی دلدارِ نظر ہو جیسے
جس سے ملتی ہے نظر بوسۂ لب کی صورت
اتنا روشن کہ سرِ موجۂ زر ہو جیسے
صحبتِ یار میں آغازِ طرب کی صورت
حرفِ نفرت کوئی شمشیرِ غضب ہو جیسے
تا ابَد شہرِ ستم جس سے تبہ ہو جائیں
اتنا تاریک کہ شمشان کی شب ہو جیسے
لب پہ لاؤں تو مِرے ہونٹ سیہ ہو جائیں
No comments:
Post a Comment
Please don't enter any Spam link in the comment box.