غزل
سب قتل ہوکے تیرے مقابل سے آئے ہیں
ہم لوگ سرخرو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں
شمعِ نظر، خیال کے انجم ، جگر کے داغ
جتنے چراغ ہیں، تری محفل سے آئے ہیں
اٹھ کر تو آگئے ہیں تری بزم سے مگر
کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں
ہر اک قدم اجل تھا، ہر اک گام زندگی
ہم گھوم پھر کے کوچئہِ قاتل سے آئے ہیں
بادِ خزاں کا شکر کرو، فیض جس کے ہاتھ
نامے کسی بہار شمائل سے آئے ہیں
No comments:
Post a Comment
Please don't enter any Spam link in the comment box.