Wednesday, December 25, 2019

دیکھنے کی تو کسے تاب ہے لیکن اب تک

فرشِ نومیدیِ دیدار

دیکھنے کی تو کسے تاب ہے لیکن اب تک
جب بھی اس راہ سے گزرو تو کسی دکھ کی کسک
ٹوکتی ھے کہ وہ دروازہ کھلا ہے اب بھی
اور اس صحن میں ہر سو یونہی پہلے کی طرح
فرشِ نومیدیِ دیدار بچھا ہے اب بھی
اور کہیں یاد کسی دل زدہ بچے کی طرح
ہاتھ پھیلائے ہوئے بیٹھی ہے فریاد کناں

دل یہ کہتا ھے کہ کہیں اور چلے جائیں جہاں
کوئی دروازہ عبث وا ہو نہ بیکار کوئی
یاد فریاد کا کشکول لیے بیٹھی ہو
محرمِ حسرتِ دیدار ھو دیوار کوئی
نہ کوئی سایہء گُل ہجرتِ گل سے ویراں

یہ بھی کر دیکھا ھے سو بار کہ جب راہوں میں
دیس پردیس کی بے مہر گزرگاہوں میں
قافلے قامت و رخسار و لب و گیسو کے
پردہء چشم پہ یوں اترے ہیں بے صورت و رنگ
جس طرح بند دریچوں پہ گرے بارشِ سنگ

اور دل کہتا ہے ہر بار چلو لوٹ چلو
اس سے پہلے کہ وہاں جائیں تو یہ دکھ بھی نہ ہو
یہ نشانی کہ وہ دروازہ کھلا ہے اب بھی
اور اُس صحن میں ہر سُو یونہی پہلے کی طرح
فرشِ نومیدیِ دیدار بچھا ہے اب بھی


اگست 1970ء
By Urdu Mehfil

No comments:

Post a Comment

Please don't enter any Spam link in the comment box.