جو پھول سارے گلستاں میں سب سے اچھا ہو
فروغِ نور ہو جس سے فضائے رنگیں میں
خزاں کے جورو ستم کو نہ جس نے دیکھا ہو
بہار نے جسے خونِ جگر سے پالا ہو
وہ ایک پھول سماتا ہے چشمِ گلچیں میں
ہزار پھولوں سے آباد باغِ ہستی ہے
اجل کی آنکھ فقط ایک کو ترستی ہے
کئی دلوں کی امیدوں کا جو سہارا ہو
فضائے دہر کی آلودگی سے بالا ہو
جہاں میں آکے ابھی جس نے کچھ نہ دیکھا ہو
نہ قحط عیش و مسرت ، نہ غم کی ارزانی
کنارِ رحمتِ حق میں اسے سلاتی ہے
سکوتِ شب میں فرشتوں کی مرثیہ خوانی
طواف کرنے کوصبح بہار آتی ہے
صبا چڑھانے کو جنت کے پھول لاتی ہے
No comments:
Post a Comment
Please don't enter any Spam link in the comment box.