Friday, January 17, 2020

عشق اپنے مجرموں کو پابجولاں لے چلا​



عشق اپنے مجرموں کو پابجولاں لے چلا​
دار کی رسیوں کے گلوبند گردن میں پہنے ہوئے​
گانے والے ہر اِک روز گاتے رہے​
پایلیں بیڑیوں کی بجاتے ہوئے​
ناچنے والے دھومیں مچاتے رہے​
ہم نہ اس صف میں تھے اور نہ اُس صف میں تھے​
راستے میں کھڑے اُن کو تکتے رہے​
رشک کرتے رہے​
اور چُپ چاپ آنسو بہاتے رہے​
لوٹ کر آ کے دیکھا تو پھولوں کا رنگ​
جو کبھی سُرخ تھا زرد ہی زرد ہے​
اپنا پہلو ٹٹولا تو ایسا لگا​
دل جہاں تھا وہاں درد ہی درد ہے​
گلو میں کبھی طوق کا واہمہ​
کبھی پاؤں میں رقصِ زنجیر​
اور پھر ایک دن عشق انہیں کی طرح​
رسن در گلو، پابجولاں ہمیں​
اسی قافلے میں کشاں لے چلا​
By Urdu Mehfil

No comments:

Post a Comment

Please don't enter any Spam link in the comment box.