تجھ سے گلے کروں تجھے جاناں مناؤں میں
اک بار اپنے آپ میں آؤں تو آؤں میں
دل سے ستم کی بے سرو کاری ہوا کو ہے
وہ گرد اڑا رہی ہے کہ خود کو گنوا ؤں میں
نادم ہوں وہ کے جس پے ندامت بھی اب نہیں
وہ کام ہیں کے اپنی جدائی کماؤں میں
کیوں کر ہو اپنے خواب کی آنکھوں میں واپسی
کس طور اپنے دل کے زمانون میں جاؤں میں
اک رنگ سی کماں ہو خوشبو سا اک تیر
مرہم سی اک واردات ہو اور زخم کھاؤں میں
شکوہ سا ایک دریچہ ہو , نشہ سا اک سکوت
ہو شام ایک شراب سی اور لڑکھڑاؤں میں
پھر اس گلی سے اپنا گزر چاہتا ہے دل
اب اس گلی کو کونسی بستی سے لاؤں میں
No comments:
Post a Comment
Please don't enter any Spam link in the comment box.