آج تو محفلِِِ یاراں پے ہو مغرور بہت
جب کبھی ٹوٹ کے بکھرو گے تو یاد آؤں گا
میری خوشبو تمہیں کھولےگی گلابوں کی طرح
تم اگر خود سے نا بولو گے تو یاد آؤں گا
اسی انداز میں ہوتے تھے مخاطب مجھ سے
خط کسی اور کو لکھوگے تو یاد آؤں گا
خط کسی اور کو لکھوگے تو یاد آؤں گا
اسی جدائی میں تم اندر سے بکھر جاؤ گے
کسی معذور کو دیکھو گے تو یاد آؤں گا
ہم نے خوشیوں کی طرح دکھ بھی اکٹھے دیکھے
صفِ زیست کو پلٹو گے تو یاد آؤں گا
تم میری آنکھ کے تیور نہ بھلا پاؤ گے
ان کہی بات کو سمجھو گے تو یاد آؤں گا
No comments:
Post a Comment
Please don't enter any Spam link in the comment box.