Sunday, December 22, 2019

تم آئے ہو، نہ شبِ انتظار گزری ہے

​غزل

تم آئے ہو، نہ شبِ انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر، بار بار گزری ہے

جنوں میں جتنی بھی گزری، بکار گزری ہے
اگرچہ دل پہ خرابی ہزار گزری ہے

ہوئی ہے حضرتِ ناصح سے گفتگو جس شب
وہ شب ضرور سرِ کوئے یار گزری ہے

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے

نہ گل کھلے ہیں، نہ اُن سے ملے، نہ مے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے

چمن میں غارتِ گلچیں سے جانے کیا گزری
قفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے
By Urdu Mehfil

No comments:

Post a Comment

Please don't enter any Spam link in the comment box.